ن لیگی اتحادی حکومت نے اقتدار پر قابض ہوتے ہی
اگلے الیکشن کا بیانیہ اور پلان تیار کرنے پر کام شروع کردیا ہے ۔ ایک طرف نواز شریف کو لندن بھیج کر اگلے الیکشن سے قبل یہ کہا جائے گا چونکہ نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں بننے دیا گیا اس لیے مسائل حل نہیں ہوئے اس لیے میاں صاحب کمال ہوشیاری سے اپنی ہی حکومت میں اپوزیشن والے بیانات دینے شروع ہوگئے اور یہ کام وہ اگلے الیکشن تک لندن میں بیٹھ کر بخوبی کرتے رہیں گے ۔ یوں اگلے الیکشن سے قبل عوام کو نئی پیکنگ میں پھر پرانا نواز شریف پیش کر کے ن لیگ ووٹ بٹورنے کی کوشش کرے گی۔
دوسری طرف خواجہ آصف اور جاوید لطیف وغیرہ کو نام نہاد اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کو "ری لانچ" کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے تاکہ کسی طرح عوام میں کھوئی ساکھ بحال کی جاسکے۔
پی ٹی آئی فی الحال دھاندلی اور عمران خان کی رہائی کے کلیدی ایجنڈے سے ہٹ کر ضمنی بحث و مباحثہ کا شکار ہو چکی ہے اس کا فایدہ اٹھاتے ہوئے حکمران اتحاد اور ان کے سرپرست دو باریک وارداتیں اگلے کچھ عرصہ میں ڈالنے والے ہیں۔
پہلی واردات یہ ہے کہ جہاں جہاں سے ن لیگی امیدوار الیکشن کمیشن کے فارم 47 میں بھی ہار گئے ہیں ان سے دوبارہ گنتی کی درخواستیں دلوائی گئی ہیں جب کہ وہ فارم 45 کا نام تک نہیں لے رہے چونکہ فارم 45 تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہیں جب کہ دوبارہ گنتی میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ ووٹوں کے تھیلے جعلی ٹھپوں سے بھر دئیے جائیں اور ریکارڈ ٹیمپرڈ کر کے جیتنے والوں کا ہرا اور ہارنے والوں کو جتوا دیا جائے۔ اس واردات کے ایک دو حلقوں سے نتائج آنا بھی شروع ہوچکے ہیں جہاں پی ٹی آئی کے فارم سینتالیس میں بھی جیتے ہوئے امیدواروں کو حیران کن طور پر ہروا دیا گیا ہے ۔ ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مشق سے پی ٹی آئی کی موجودہ نشتوں میں سے بھی پندرہ سے بیس نشستیں کم کر دی جائیں گی تاکہ وہ اصلی دھاندلی کو بھول کر اپنی موجودہ نشتوں کو بچانے کی فکر میں لگ جائیں یا پھر جو ملا اسی کو غنیمت سمجھ کر خاموش ہو جائیں ۔
دوسری باریک واردات یہ ہونے والی ہے کہ ن لیگ کے بعض ایسے رہنماء جو الیکشن کمیشن کے فارم 47 کے مطابق بھی ہارے ہوئے ہیں وہ اب متوار میڈیا پر آکر اپنی شکست کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دینے لگ گئے ہیں جب کہ سب کو معلوم ہے کہ دھاندلی کہاں اور کیسے ہوئی ، البتہ یہ رہنما جن میں رانا مشہود اور جاوید لطیف وغیرہ شامل ہیں ، دھاندلی پر میڈیا کی مدد سے کچھ ایسا ماحول بنانے والے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد یوں لگنے لگے گا کہ جیسے دھندلی پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں ن لیگ کے ساتھ ہوئی ہے ۔۔
لہذا ن لیگ دو بیانیے لیکر اگلے الیکشن میں جائے گی
نمبر ایک ، نواز شریف کو وزیر اعظم نہ بنا کر بلیک میل اور زیادتی کی گئی جس کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہوئے ۔ اس لیے نواز شریف کو وزیر اعظم بنانا ضروری ہے۔
دوسرا یہ ماحول بنایا جائے گا کہ دھاندلی پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں ن لیگ کے ساتھ ہوئی ہے اور مقصد نواز شریف کو وزیر اعظم بننے سے روکنا تھا!!
ن لیگ میڈیا میں موجود اپنے ہمدردوں کی مدد سے یہ ماحول بہت آسانی سے بنا لے گی اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی دھاندلی کے معاملے پر کوئی موثر میڈیا یا عوامی مہم نہیں چلا پا رہی اور رفتہ رفتہ یہ ایشو پس منظر میں جاتا دکھائی دے رہا ہے ۔۔
اس کی ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی کا بطور جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا اور اپنے قائد سے رابطے کا فقدان بھی کہی جاسکتی ہے تاہم اس کے باوجود جو باقی مانندہ لیڈر شپ موجود ہے اس کو چاہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اور ایشو کوئی بھی سامنے آ جائے مگر اپنا پرائمری فوکس ان تین چار نکات پر ہی رکھیں۔
دوسری طرف خواجہ آصف اور جاوید لطیف وغیرہ کو نام نہاد اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کو "ری لانچ" کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے تاکہ کسی طرح عوام میں کھوئی ساکھ بحال کی جاسکے۔
پی ٹی آئی فی الحال دھاندلی اور عمران خان کی رہائی کے کلیدی ایجنڈے سے ہٹ کر ضمنی بحث و مباحثہ کا شکار ہو چکی ہے اس کا فایدہ اٹھاتے ہوئے حکمران اتحاد اور ان کے سرپرست دو باریک وارداتیں اگلے کچھ عرصہ میں ڈالنے والے ہیں۔
پہلی واردات یہ ہے کہ جہاں جہاں سے ن لیگی امیدوار الیکشن کمیشن کے فارم 47 میں بھی ہار گئے ہیں ان سے دوبارہ گنتی کی درخواستیں دلوائی گئی ہیں جب کہ وہ فارم 45 کا نام تک نہیں لے رہے چونکہ فارم 45 تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہے ہیں جب کہ دوبارہ گنتی میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ ووٹوں کے تھیلے جعلی ٹھپوں سے بھر دئیے جائیں اور ریکارڈ ٹیمپرڈ کر کے جیتنے والوں کا ہرا اور ہارنے والوں کو جتوا دیا جائے۔ اس واردات کے ایک دو حلقوں سے نتائج آنا بھی شروع ہوچکے ہیں جہاں پی ٹی آئی کے فارم سینتالیس میں بھی جیتے ہوئے امیدواروں کو حیران کن طور پر ہروا دیا گیا ہے ۔ ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مشق سے پی ٹی آئی کی موجودہ نشتوں میں سے بھی پندرہ سے بیس نشستیں کم کر دی جائیں گی تاکہ وہ اصلی دھاندلی کو بھول کر اپنی موجودہ نشتوں کو بچانے کی فکر میں لگ جائیں یا پھر جو ملا اسی کو غنیمت سمجھ کر خاموش ہو جائیں ۔
دوسری باریک واردات یہ ہونے والی ہے کہ ن لیگ کے بعض ایسے رہنماء جو الیکشن کمیشن کے فارم 47 کے مطابق بھی ہارے ہوئے ہیں وہ اب متوار میڈیا پر آکر اپنی شکست کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دینے لگ گئے ہیں جب کہ سب کو معلوم ہے کہ دھاندلی کہاں اور کیسے ہوئی ، البتہ یہ رہنما جن میں رانا مشہود اور جاوید لطیف وغیرہ شامل ہیں ، دھاندلی پر میڈیا کی مدد سے کچھ ایسا ماحول بنانے والے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد یوں لگنے لگے گا کہ جیسے دھندلی پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں ن لیگ کے ساتھ ہوئی ہے ۔۔
لہذا ن لیگ دو بیانیے لیکر اگلے الیکشن میں جائے گی
نمبر ایک ، نواز شریف کو وزیر اعظم نہ بنا کر بلیک میل اور زیادتی کی گئی جس کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہوئے ۔ اس لیے نواز شریف کو وزیر اعظم بنانا ضروری ہے۔
دوسرا یہ ماحول بنایا جائے گا کہ دھاندلی پی ٹی آئی کے ساتھ نہیں ن لیگ کے ساتھ ہوئی ہے اور مقصد نواز شریف کو وزیر اعظم بننے سے روکنا تھا!!
ن لیگ میڈیا میں موجود اپنے ہمدردوں کی مدد سے یہ ماحول بہت آسانی سے بنا لے گی اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی دھاندلی کے معاملے پر کوئی موثر میڈیا یا عوامی مہم نہیں چلا پا رہی اور رفتہ رفتہ یہ ایشو پس منظر میں جاتا دکھائی دے رہا ہے ۔۔
اس کی ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی کا بطور جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا اور اپنے قائد سے رابطے کا فقدان بھی کہی جاسکتی ہے تاہم اس کے باوجود جو باقی مانندہ لیڈر شپ موجود ہے اس کو چاہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اور ایشو کوئی بھی سامنے آ جائے مگر اپنا پرائمری فوکس ان تین چار نکات پر ہی رکھیں۔
اول ، دھاندلی کیخلاف عوامی ،عدالتی اور میڈیا کی سطح پر بھرپور آواز بلند کرتے رہیں۔ دوئم ، عمران کی رہائی کو اپنی تحریک کا مرکزی نکتہ بنائیں اور اس پر عوام کو موبلائز کریں سوئم ، پی ڈی ایم ٹو کا پی ٹی ایم ون کا تسلسل ثابت کریں اور مہنگائی کے ایشو پر عوام کے ساتھ کھڑے نظر آئیں ۔چہارم , آئی ایم ایف ڈیل کی براہ راست مخالفت کرنے کی بجائے اس معاہدے کو دلیل کے ساتھ ملک اور عوام دشمن ثابت کریں۔
Note: Follow our WhatsApp channel for more informative posts, thank you.
(https://whatsapp.com/channel/0029Va8LQsQ3rZZTtHzZ0k1x)
Tags:
Current Affairs