الیکشن 2024 : آگے کا منظر نامہ

الیکشن کے بعد کا منظر نامہ ؟



ملک میں بالآخر الیکشن کا عمل اپنے اختتام کو پہنچا اور نتائج بھی تقریباآچکے ہیں 

اب تک کے نتائج اور حالات کے مطابق آگے کا منظر نامہ کچھ یوں لگ رہا ہے  

مرکز اور پنجاب میں ن لیگ پی پی،متحدہ، ق لیگ ملکر اور  پنجاب میں ق لیگ پی پی، ن لیگ  حکومت بنا سکتی ہیں  پی پی کو مرکز یا پنجاب میں جو کچھ بھی مل جائے اسکے لئے بونس ہے مگر ن لیگ شاید مرکز میں وزارت عظمی نہ لے، اسکی دو بڑی  وجوہات ہیں 

پہلی وجہ، پی ڈی ایم حکومت کا تجربہ ہے جس میں کڑے فیصلوں کا سارا ملبہ ن لیگ پر گرا اور اسکا خمیازہ اسے الیکشن میں بھگتنا پڑا جب کہ پی پی پی اور دیگر جماعتیں وقت آنے پر آرام سے پتلی گلی سے نکل گئیں 

دوسری وجہ ن لیگ کو بھی پتا کہ متعدد حلقوں میں ان کے حق میں نتائج مشکوک ہیں اور کسی بھی وقت عدالتی حکم پر واپس ہوسکتے ہیں یوں یہ مجوزہ سیٹ اپ کسی بھی وقت دھڑام سے گر سکتا ہے اس لیے ن لیگ مخلوط حکومت میں غیر یقینی وقت کے لیے فرنٹ فٹ پر کھیل کر مزید مقبولیت دائو پر نہیں لگائے گی

اس لیے قرین قیاس بات یہی ہے کہ ن لیگ مرکز میں وزارت عظمیٰ کی گھنٹی کسی اور کے گلے باندھ آرام سے پنجاب میں اقتدار انجوائے کرنا پسند کرے گی، اس طرح وہ مرکزی حکومت میں فرنٹ فٹ پر نہ ہونے کی وجہ سے شاید آئندہ الیکشن سے قبل اپنی مقبولیت کو کچھ بحال کر سکے

اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر ن لیگ کا وزیر اعظم نا ہوا تو پھر کون وزیر اعظم ہوگا؟ میری نظر میں وہ بلاول بھی نہیں ہونگے ،ممکن ہے پیپلز پارٹی میں سے کی کوئی اور نام آجائے یا پھر آزاد شامل ہونے والوں میں سے کسی کو وزیر اعظم بنا دیا جائے

اگر معاملات اسی ڈگر پر آگے بڑھے تو پھر نواز شریف صدر کا عہدہ سنبھال سکتے ہیں، پنجاب میں ان کی   مریم نواز وزیر اعلیٰ بن سکتی ہیں۔یوں جس قدر بھی یہ سیٹ اپ چل سکا اسی انداز سے چلانے کی کوشش کی جائے گی 

اب آتے ہیں تحریک انصاف کے معاملات کی جانب 

تحریک انصاف کے لیے اس نئی صورت حال میں پہلا چلینج تو یہ ہے کہ وہ اپنے آزاد امیدواروں کو دوسری جماعتوں میں شمولیت سے روک پاتی ہے یا نہیں؟ 

اگر ن، پی پی اتحادی حکومت بنتی ہے تو اس صورت میں تو انہیں آزاد امیدواروں کی کوئی خاص ضرورت نہیں پڑے گی

آزاد امیدواروں کو اپنی جانب راغب کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آسکتی ہے جب ن اور پی پی اتحادی حکومت پر متفق نہ ہوں اور اپنی اپنی جگہ الگ سے حکومت کے لیے کوشش کرنا چاہیں، یہ تجربہ چونکہ زرداری صاحب کا زیادہ اچھا ہے تو ممکن ہے وہ ن کے بغیر بھی حکومت بنانے کے لیے آزاد امیدواروں سے رابطے کریں

دوسری جانب آزاد امیدواروں کو بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ ہوسکتا ہے موجودہ سیٹ اپ ذیادہ دیر نہ چلے اور جلد ہی دوبارہ الیکشن کے لیے عوام کے پاس جانا پڑ سکتا ہے ، اس صورت میں وفاداری بدلنے کے بعد  کیا عوام انکو دوبارہ قبول کریں گے ؟

اگر پی ٹی آئی اپنے امیدواروں کو اپنے ساتھ جڑے رکھنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر آگے انکے لئے دو آپشن نظر آتے ہیں

پہلا یہ کہ وہ پیپلز پارٹی، ق لیگ  کے ساتھ ملکر مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنا لیں جس کے چانسز بہت محدود ہیں کیونکہ اس کے لیے عمران خان راضی نہیں ہونگے

اگر وہ کسی مجبوری میں راضی بھی ہو جائیں تو ایسے کسی سیٹ اپ کا تحریک انصاف کو فائدے 

سے زیادہ نقصان ہوگا

دوسرا آپشن یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پی کے میں حکومت بنا لے اور مرکز و پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھ جائے

موجودہ حالات میں تحریک انصاف کو درج بالا سیٹ اپ سب سے زیادہ سوٹ کرتا ہے ، کے پی کی حکومت کے ساتھ وہ مرکز و پنجاب میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرسکتے ہیں جب کہ دھاندلی کے بیانئے کیخلاف وہ سڑکوں پر احتجاج اور عدالتی جنگ کے ذریعے عوام کو موبلائز بھی رکھ سکتے ہیں

اگر پی ڈی ایم ٹو کا تجربہ بھی ناکام ہوتا ہے تو ممکن ہے ہم سال دو سال بعد پھر ایک الیکشن دیکھ رہے ہوں اس وقت پی ٹی آئی کی پوزیشن آج سے بھی شاید زیادہ بہتر ہو کیونکہ ایک تو ہمدردی و اپوزیشن کا ووٹ دوسرا چند سال بعد مزید کروڑوں نوجوان ووٹرز ووٹ دینے کے لیے اہل ہوچکے ہونگے

ان نئے نوجوان ووٹرز کی مدد سے پی ٹی آئی تھوڑے ہی عرصے کے بعد بہتر شکل  میں حکومت میں واپس  آسکتی ہے

مگر اس کے لیے صبر اور حکمت عملی کی ضرورت ہے 

ایک اور چیلنج پی ٹی آئی کو یہ درپیش ہے کہ نشان کھونے کے بعد اب وہ پارلیمانی پارٹی نہیں کہلا سکتی اس لیے اسکے آزاد جیتنے والوں کو کسی اور جماعت میں شامل ہونا ہوگا

تحریک انصاف کے پاس فی الحال اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی اور ایم ڈبلیو ایم ،پنجاب میں ضیاء لیگ اور ٹی ایل پی اپنی ایک ایک نشستوں کے ساتھ موجود ہیں

سندھ میں جی ڈی اے کام آسکتی ہے

اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنی موجودہ الیکشن کامیابی کوکتنا اور کیسے بہتر مینج کرسکتی ہے 

*****

Post a Comment

Previous Post Next Post