افلاطون غلط نہیں تھا۔۔!
یونانی فلسفی افلاطون (Plato) نے اپنی کتاب "ریپبلک" (The Republic) میں کہا تھا کہ "تجارت پیشہ افراد کو حکومت کا اختیار نہیں دینا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین بنائیں گے اور ریاست کے بجائے اپنے کاروبار کو فائدہ پہنچانے کے لیے فیصلے کریں گے۔"
یہ قول پاکستان کے توانائی کے شعبے میں حالیہ حکومتی پالیسیوں پر بالکل صادق آتا ہے، خاص طور پر سولر پینل اور پاور پلانٹس کے معاملے میں۔ ذیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب ایک اعلیٰ ترین حکومتی شخصیت کے صاحبزادے ترکی پہنچے اور مبینہ طور پر وہاں کھربوں روپے کے سولر پینلز کی ڈیل کر آئے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے اگلے بجٹ میں سولر پینل کی درآمد پر ڈیوٹی اور فروخت پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2023 میں 1.2 ارب ڈالر کے سولر پینل درآمد کیے گئے۔ مگر پھر ایک سوال اٹھا کہ اگر تمام صارفین نے سولر پینل لگا لیے تو مہنگے کرائے پر چلنے والے بجلی گھروں سے بجلی کون خریدے گا؟ اور جو کھربوں روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں بغیر بجلی پیدا کیے وصول کیے جا رہے ہیں، ان کا کیا بنے گا؟ (یہ بجلی گھر بھی درپردہ حکمران اشرافیہ کے اپنے ہیں۔)
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں کیپسٹی پیمنٹ کا نظام انتہائی مہنگا اور غیر شفاف ہے۔ ایک اندازے کے مطابق حکومت نے مختلف آئی پی پیز (Independent Power Producers) سے 42,573 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے معاہدے کر رکھے ہیں، جبکہ اصل طلب 28,317 میگاواٹ کے لگ بھگ ہے، یعنی ہم اضافی بجلی کے لیے اربوں روپے ادا کر رہے ہیں۔
خیر، اب چونکہ پینل درآمد ہو چکے تھے، انہیں فروخت کرنا بھی ضروری تھا، تو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی گئی۔ اس کمیٹی نے حکومتی اداروں اور زرعی ٹیوب ویلوں پر سولر پینل لگانے کی سفارش کی، لیکن ساتھ ہی تجویز دی کہ عام صارفین کے بجائے بڑے سولر پاور پلانٹس لگائے جائیں، تاکہ بجلی نیشنل گرڈ کے ذریعے عوام کو فراہم کی جا سکے۔
حکومت نے اس پر عمل کرتے ہوئے 10,000 میگاواٹ کے سولر پاور پلانٹ لگانے کی منظوری دی، جنہیں بعد میں 2,000 میگاواٹ کے پانچ منصوبوں میں تقسیم کر کے مخصوص سرمایہ کاروں کو دے دیا گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جو سرمایہ کار پہلے سولر پینل کے کاروبار میں تھے، وہی اب سولر پاور پلانٹس لگانے لگے۔ اس پراجیکٹ پر کام جاری ہے، جبکہ پہلے سے موجود رینٹل پاور کمپنیوں نے بھی اس صورتحال میں اپنے مفادات کا نیا راستہ نکال لیا۔ چونکہ سولر پینل لگنے سے تقریباً 3,000 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ سے باہر ہو گئی، آئی پی پیز نے اس کمی کو بھی کیپسٹی پیمنٹ میں شامل کر کے اس کا بوجھ عام صارفین پر ڈال دیا، جو آج تک اضافی بلوں کی شکل میں وصول کیا جا رہا ہے۔
جہاں تک درآمد شدہ سولر پینلز کی فروخت کا تعلق ہے، تو انہیں وفاقی اور پنجاب حکومت کی مختلف اسکیموں کے تحت بیچا جا رہا ہے۔ ایک طرف چند لاکھ صارفین کو مفت سولر دینے کے نام پر سیاسی تشہیر جاری ہے، جبکہ دوسری طرف انہی درآمد شدہ پینلز کو سرکاری خزانے سے خرید کر ٹھکانے لگایا جا رہا ہے۔
آخر، اپنے کاروبار کا نقصان بھلا کون کر سکتا ہے؟ یہی حکمران اشرافیہ پہلے آئی پی پیز کے ذریعے قوم کو لوٹتی رہی، پھر سولر پینل کا جال بچھایا، اور اب سولر پاور پلانٹس لگا کر عوام کو مزید مالی بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔
اس کے باوجود بھی جب حکومت نے محسوس کیا کہ زیادہ لوگ نجی طور پر سولر پینل لگا رہے ہیں، تو اب نیٹ میٹرنگ کے قواعد سخت کر دیے گئے ہیں۔ قوانین میں تبدیلی کر کے نئے نیٹ میٹرنگ صارفین کے لیے بجلی کی خریداری قیمت صرف 10 روپے فی یونٹ مقرر کر دی گئی، جبکہ وہی بجلی انہیں 65 روپے فی یونٹ میں واپس بیچی جائے گی۔ اس کے علاوہ یونٹس کی ایڈجسٹمنٹ کا نظام بھی ختم کر دیا گیا۔
اس کا مقصد واضح ہے کہ عام صارف کے لیے نجی طور پر سولر پینل لگانا مشکل بنا دیا جائے تاکہ حکومت اور مخصوص سرمایہ کاروں کے سولر پاور پلانٹس کی بجلی ہی فروخت ہو۔
یہ سب کچھ دیکھ کر افلاطون کا وہ قول بار بار ذہن میں گونجتا ہے، جس میں اس نے خبردار کیا تھا کہ اگر تاجروں کو حکمرانی دے دی جائے تو وہ اپنی دولت بڑھانے کے لیے قوانین بنائیں گے، انہیں ختم کریں گے اور ہر چیز کو اپنے کاروباری مفاد کے تابع کر دیں گے۔
اس کے پیچھے اصل فلسفیانہ تصور یہ ہے کہ "جب تاجر حکمران بن جائیں تو وہ اپنے مفادات کو عوامی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں، اس لئے افلاطون نے مثالی ریاست (Ideal State) کے تصور میں فلسفی بادشاہ (Philosopher King) کی حمایت کی اور کہا کہ حکمرانی ان لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو دانائی، عدل اور عوامی فلاح کے اصولوں پر کاربند ہوں، نہ کہ ان کے جو دولت اور ذاتی فوائد کے پیچھے ہوں۔"
پاکستانی سیاست میں فلسفی بادشاہ تو شاید کبھی نہ آ سکے، مگر کم از کم پالیسی سازی میں کاروباری مفادات کو عوامی فلاح پر حاوی ہونے سے روکنے کی کوئی تدبیر تو کی جا سکتی ہے!
مثلا اگر حکومت عوامی فلاح و بہبود کے لیے مخلص ہے تو اسے چاہیے کہ: کیپسٹی پیمنٹ کے معاہدے از سر نو طے کیے جائیں تاکہ غیر ضروری بوجھ کم ہو۔ توانائی کے منصوبوں میں شفافیت لانے کے لیے آزاد آڈٹ کروایا جائے۔ نیٹ میٹرنگ کے قوانین کو صارفین کے حق میں نرم کیا جائے۔ سولر پاور پلانٹس کے ساتھ ساتھ گھریلو سولر انسٹالیشنز کو بھی سبسڈی دی جائے۔
📢 اپنی آواز بلند کریں!
یہ مسئلہ صرف چند لوگوں کا نہیں، یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ توانائی کے نظام میں شفافیت آنی چاہیے، تو اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں۔
📲 واٹس ایپ پر تازہ ترین اپڈیٹس کے لیے ہمارا چینل جوائن کریں:
🔗 واٹس ایپ چینل فالو کریں