خوارج کے خلاف جنگ اور فکری کمک – پاکستان کی نظریاتی فتح
ٹی ایم اعوان
2011 کی بات ہے جب پاکستان میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، اور خودکش حملے روزمرہ کا معمول بن چکے تھے۔ یہاں تک کہ پاک فوج کے جوانوں اور افسران کے لیے یونیفارم میں باہر نکلنا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔
خوارج اتنے طاقتور ہو چکے تھے کہ ہر مخالف آواز کو خاموش کرنے کے درپے تھے۔ بڑے بڑے علماء مصلحت یا خوف کے باعث خاموش تھے، جبکہ کچھ نام نہاد مذہبی شخصیات کھلے عام ان دہشت گردوں کو نظریاتی جواز فراہم کر رہی تھیں۔
مزید برآں، پاک فوج کے سپاہی اور افسران، جب اپنے مخالفین کو بھی نعرۂ تکبیر بلند کرتے اور جہاد کا دعویٰ کرتے سنتے، تو ان کے اندر اضطراب اور فکری الجھن پیدا ہوتی تھی۔ جنگ محض عسکری قوت سے نہیں، بلکہ فکری وضاحت سے بھی لڑی جاتی ہے، اور اس وقت ریاست اور فوج کے پاس دہشت گردوں کے نظریے کا جواب دینے کے لیے مضبوط علمی و دینی بنیاد موجود نہیں تھی۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا فکری بیانیہ اور تاریخی فتویٰ
اس نازک موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری نے بے خوفی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو فتنہ خوارج سے تعبیر کیا اور پاک فوج کے خلاف لڑنے والے متـحارب گروہوں کو خوارج قرار دیا۔
اس حوالے سے انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک تاریخی اور مستند 600 صفحات پر مشتمل فتویٰ جاری کیا، جس میں تحریکِ طالبان پاکستان (TTP)، داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کو خوارج قرار دیا گیا اور خودکش حملوں کو قطعی حرام کہا گیا۔
(حوالہ: "دہشت گردی اور فتنہ خوارج"، ڈاکٹر طاہر القادری، 2011)
یہ تاریخی فتویٰ آنے والے وقت میں پاکستان کی دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے اصول واضح کرنے میں سنگِ میل ثابت ہوا۔
فتویٰ کے بنیادی نکات:
1. دہشت گرد گروہ، خصوصاً TTP اور داعش، خوارج کے نظریات کے حامل ہیں۔
2. اسلام میں خودکش حملے اور بے ناہ افراد کا قتل قطعی حرام ہے۔
(حوالہ: "دہشت گردی کے خلاف اسلامی مؤقف"، ڈاکٹر طاہر القادری، 2011)
3. ریاست کے خلاف مسلح بغاوت اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
جلد ہی یہ فتویٰ عسکری اور فکری حلقوں میں راہنما اصول بن گیا۔ پاک فوج کے وہ جوان جو محاذ پر دشمنوں کے نعرۂ تکبیر سن کر الجھن کا شکار ہوتے تھے، اس فکری وضاحت کے بعد یقین و ایمانی قوت کے ساتھ میدانِ جنگ میں اترے اور دشمن پر کاری ضرب لگائی۔
ریاست پاکستان کا سرکاری بیانیہ اور فکری کمک
آج، تقریباً 14 سال بعد، ریاست پاکستان نے ڈاکٹر طاہر القادری کے فکری بیانیے کو سرکاری حیثیت دے دی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان 2015 اور نیشنل انسداد دہشت گردی پالیسی 2023 میں واضح کیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف فکری جنگ بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ عسکری جنگ۔
اس پالیسی کی روشنی میں اب پاکستانی میڈیا اور ریاستی ادارے کھل کر دہشت گردوں کو "خوارج" اور "جہنمی" قرار دے رہے ہیں جو کہ ایک بڑی فکری پیش رفت ہے۔
(حوالہ: نیشنل ایکشن پلان 2015 اور نیشنل انسدادِ دہشت گردی پالیسی 2023)
یہ سب ممکن نہ ہوتا، اگر اس کے پیچھے ایک عالمِ دین کی علمی اور فکری کاوشیں نہ ہوتیں۔ آج، عسکری حلقوں میں ڈاکٹر طاہر القادری کے فتویٰ اور نصاب کو باقاعدہ پڑھایا جا رہا ہے تاکہ فوجی جوان اور افسران نظریاتی اور دینی طور پر مضبوط رہیں۔
خوارج کے فکری سرچشمے ختم کرنا ضروری ہے
یہ سب اپنی جگہ، مگر اب بھی ایک بڑا چیلنج باقی ہے: اور وہ ہیں دہشت گردوں کی فکری تربیت گاہیں اور ذہن سازی کے مراکز۔ جب تک ان کے نظریاتی سرچشمے ختم نہیں کیے جاتے، شدت پسندی کا خطرہ برقرار رہے گا۔
لہٰذا، ضرورت اس امر کی ہے کہ:
✅ اس فکری بیانیے کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔
✅ دینی مدارس میں شدت پسندی کے خلاف باضابطہ نصاب متعارف کرایا جائے۔
✅ میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور پیدا کیا جائے تاکہ خوارج کے نظریے کا جڑ سے خاتمہ ہو سکے۔
یہی وہ اقدامات ہیں جو پاکستان کو ایک
مستحکم، پرامن اور فکری طور پر محفوظ ریاست میں تبدیل کر سکتے ہیں۔