مہنگائی: عمران خان دور اور موجودہ حکومت کا ایک تقابلی جائزہ

ابو خلدون

imran khan vs shahbaz sharif economy

پاکستان میں مہنگائی ہمیشہ اور ہر دور میں ایک بڑا مسئلہ رہا ہے مگر پچھلے دو سالوں سے مہنگائی اور بے روزگاری کا جو سیلاب آیا ہے اسکی مثال پاکستان کی 76 سالہ تاریخ میں نہیں ملتی ، ایک طرف مہنگائی اور دوسری طرف بے روزگاری اور کاروباری حالات کی مندی نے عوام سے قوت خرید یکسر چھین لی ہے ، خاص طور پر بجلی اور گیس کے بلوں نے حقیقی معنوں میں عوام کا بھرکس نکال دیا ہےجب کہ حکومت وقت تاحال بجلی، گیس کے بلوں کو کم کرنے کی بجائے انکو مسلسل مزید بڑھانے کے نت نئے طریقے ہی سوچ رہی ہے ۔


اپریل 2022 کے بعد مہنگائی کا کتنا بڑا طوفان آیا ، آئیے سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں ایک جائزہ لیتے ہیں۔ سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق مارچ 2022 میں 20کلو آٹا1100کا تھا جو آج کم ہوکر بھی 2250 تک پہنچا ہے۔مارچ 2022 میں گھریلو ایل پی سلنڈر 2467 روپے کا تھا ، آج سرکاری ریٹ 3030 ہے جب کہ مارکیٹ میں 3600 سے 4200 روپے میں فروخت ہو رہا ہے، گھریلو سوئی گیس 3.37 ایم ایم بی ٹی یو تک کی قیمت صرف 142 روپے تھی جو آج قیامت خیز اضافے کے ساتھ 3300 روپے پر پہنچ چکی ہے۔ حتی کے گرمیوں میں بھی گیس کے بل سردیوں سے بھی زیادہ آرہے ہیں ،اپریل 2022 تک عام گھریلو صارف کا نارمل بل 500 سے زیادہ نہیں آتا تھا جو آج 7 سے آٹھ ہزار کو بھی کراس کر رہا ہے ۔گیس سے تنگ آکر اگر لکڑی کا استعمال کریں تو اسے بھی آگ لگ چکی ہے جو لکڑی مارچ 2022 میں 1296 روپے من تھی آج 2300 روپے من ہے. بجلی کے پچاس یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے مارچ 2022 میں فی یونٹ قیمت صرف 6.5 روپے تھی جو آج سب سے غریب طبقے کے لیے بھی 23 روپے سے 29 روپے ہوچکی ہے جب کہ تین سو یونٹ تک سبسڈی بھی ختم ہوگئی ایک عام گھریلو صارف کا 100 یونٹ کا بل بھی 5ہزار تک چلا گیا ہے جو 2022 تک سات سو سے ہزار روپے تک تھا۔

imran khan vs shahbaz sharif economy

مارچ 2022 میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں


پٹرول اپریل 2022 میں 150روپے ، ڈیزل 144روپے تھا، آج پٹرول 293 ،ڈیزل 290 پر کھڑا ہے ،مارچ 2022 میں ڈالر 180 ، آج 280 روپے ہے ۔چاول باسمتی بروکن 112روپے کلو آج 240 روپے ہے، ایری چاول صرف 76 روپے کلو تھے ، آج 170 ہیں ،چھوٹی ڈبل روٹی 70 روپے تھی آج 115 کی ہے، زندہ مرغی 274 روپے کلو تھی آج 516 روپے ہے جب کہ صافی گوشت 700 سے 800 کے درمیان ہے۔ مٹن 1400 روپے تھا آج 2200 روپے ہے ، بیف 600 سے 700 روپے تھا آج 1200 روپے کلو ہے۔ دودھ 120 روپے تھا جو آج 200 روپے ہے، دھی 140 تھا آج 220 روپے کلو ہے، پائوڈر دودھ 390 گرام پانچ سو روپے تھا آج 840 روپے ہے، انڈے 130 روپے درجن تھے آج 245 روپے ہیں ، بناسپتی گھی عام مارکیت میں 460 جب کہ یوٹیلیٹی سٹور پر 300 روپے تھا، آج عام مارکیت میں سات سو سے کم ہوکر بھی 500 ہوا ہے جب کہ یوٹیلیٹی سٹور پر بھی عام صارفین کے لیے یہی ریٹ ہے۔


دال مسور 223 روپے تھی آج 329 روپے ، دال مونگ 165 روپےتھی آج 312 روپے ، دال ماش 179 روپے کلو آج 260 روپے ، دال ماش 289 روپے آج 548 روپے ، چنے کی دال 179 روپے آج 260, آلو 49 روپے کلو آج 80 روپے , پیاز 50 روپے تھے آج 200 سے اڑھائی سو روپے کلو بک رہے ہیں، ٹماٹر 97 روپے آج 120 ، چینی 90 روپے کلو آج 155 ، لہسن 374 روپے کلو آج 600 ، چائے ایک سو نوے گرام 260 روپے تھی آج 544 روپے ہے، واشنگ سوپ 88 روپے کا تھا جو آج 130 کا ہے ، درمیانے درجے کے ہوٹل پر چائے کا کپ چالیس روپے تھا آج60 سے 70 روپے ہے ، دال کی پلیٹ 80 سے 100 روپے تھی آج 150 سے 180 ہے ، بیف کے گوشت کی پلیٹ 180 روپے تھی آج 280 سے 300 روپے کی ہے ، روٹی 10 روپے نان 12 کا تھا جو آج وزن کم 
کر کے بھی 16 کی ہوئی ہے جب کہ نان کی قیمت 25 روپے برقرار ہے

imran khan vs shahbaz sharif economy

مارچ 2024 میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں



آج کل حکومتی وزراء جانے کہاں سے اور کیسے مہنگائی میں کمی کی نویدیں سنا رہے ہیں جب کہ اگر زیادہ نہیں تو کم از کم موجودہ قیمتوں کو عمران خان کے دور پر تو واپس لایا جائے کیونکہ یہی وہ قیمتیں تھیں جن کیخلاف پی ڈی ایم جماعتوں نے تین لاکھ مارچ کیے تھے۔ اگر ان قیمتوں پر تین لانگ مارچ بنتے تھے تو آج کی قیمتوں کو دیکھتے ہوئے تو قیامت برپا ہوجانی چاہے تھی جبکہ اصل مسئلہ قوت خرید کا ہے اب بالکل ختم ہوچکی ہے ۔ یعنی غریب آدمی دونوں جانب سے مارا جارہا ہے ،ایک مہنگائی کے ہاتھوں اور دوسرا بے روزگاری ،کسانوں کا حال ہمارے سامنے ہے جو زمین سے سونا اگا کر اسے مٹی کے بھائو بھی بیچنے سے قاصر ہیں کیوں کہ حکومت نے عین فصل کی اتارئی کے وقت اسے لینے سے انکارکردیا ہوا ہے ۔وہ کسان جس نے اپنے خون پسینے کی کمائی لگا کر یا پھر آڑھتیوں سے ادھار لیکر گندم اگائی تھی وہ اب ماتھے پر ہاتھ رکھ اور گندم کے ڈھیر سڑکوں پر لگا کر بیٹھا ہے اور کوئی اسکا پرسان حال نہیں ہے ۔ درحقیقت حکومت نے کسانوں سے دھوکہ کیا ہے،اگر کسی وجہ سے گندم کی خریداری نہیں کرنی تھی تو کسان کو فصل لگاتے وقت بتا دینا چاہے تھا یا پھر اس وقت بتا دیاجاتا جب ملک میں گندم کے وافر ذخائر کے باوجود باہر سے امپورٹ کرلی گئی تھی تاکہ کسان   بیچارہ اپنی روزی کا کوئی متبادل بندوبست کرلیتا مگر اس کے سر پر عین وقت پر ہل چلائے گئے اور وہ  حکومت کی کم ظرفی کا شکار ہوگیا ۔
 
حوالہ جات :

Post a Comment

Previous Post Next Post