ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ!!


100 Days of Maryyam Nawaz Government

29مئی 2024 کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی زیر صدارت ایک اجلاس منعقد ہوتا ہے جس میں آمدہ بجٹ کے حوالے سے تجاویز پر غور کیا جاتا ہے اور اس بات پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ ائی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجٹ تیار کیا جائے گا۔ نواز شریف بذات خود اس اجلاس کی صدارت کرتے ہیں اور بجٹ سے متعلق تمام تجاویز کی منظوری دیتے ہیں۔ اس اجلاس کی باقاعدہ خبر بھی میڈیا کو جاری کی جاتی ہے۔

100 days of Maryyam Nawaz Government

پھر 24 جون 2024 کو کچھ خاص اخباری نمائندوں کے ذریعے ایک اور خبر میڈیا کو جاری کی جاتی ہے جس کے مطابق نواز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی کو قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں رخصت کی درخواست بھجوا دی ہے اور وہ باقی بجٹ سیشن میں شریک نہیں ہوں گے۔ جنگ کے نمائندے نے تو اس سے دو قدم آگے نکلتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ نواز شریف بجٹ میں غریب، متوسط اور سفید پوش طبقے پر بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے ناراض اور دل گرفتہ ہیں، اس وجہ سے وہ بجٹ سیشن میں شریک نہیں ہونا چاہتے۔

اس رویے کی کچھ سمجھ نہیں آئی کیونکہ اول تو جو بجٹ پاس ہوا ہے اس کی منظوری میاں صاحب نے خود ماڈل ٹاؤن کے اجلاس میں دی تھی، تمام اخبارات نے اس کو رپورٹ بھی کیا، پھر بھی اگر میاں صاحب اس بجٹ پر اتنے ہی پریشان اور دل گرفتہ تھے تو بجائے ناراضگی لے کر گھر بیٹھنے کے وہ قومی اسمبلی اجلاس میں ضرور آتے اور بجٹ بحث کے دوران اپنی رائے کا اظہار کرتے، کیونکہ جس وقت انھوں نے رخصت لی اس وقت تو بجٹ منظوری میں ابھی کئی مراحل باقی تھے۔ تو کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ میاں صاحب اپنی حکومت سے کہہ کر وہ تمام ظالمانہ اقدامات واپس کرواتے جس کی وجہ سے وہ دل گرفتہ ہیں؟ اگر میاں صاحب اپنی اس دل گرفتگی کا ذکر اپنے چند مخصوص اخباری نمائندوں سے کرنے کی بجائے قومی اسمبلی کے فلور پر آ کر کرتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے قائد اور پارٹی صدر کی رائے کو مقدم نہ رکھتی۔

Pakistan's Budget 2024-2025

ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ میاں صاحب اس سے قبل بھی اپنی پچھلی پی ڈی ایم حکومت کے دوران بھی یہی طفلانہ حرکتیں کرتے رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو رخصت کرنے سے لے کر پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام اور پھر اس کی 18 ماہ کی کارکردگی، اس دوران میاں صاحب کو ہر فیصلے پر اعتماد میں لیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ اہم حکومتی اور پارٹی امور سے متعلق مشاورت کے لیے نواز شریف سرکاری خرچ پر پاکستان کی پوری کابینہ کو لندن طلب فرما لیا کرتے تھے مگر جب ان فیصلوں کے نتیجے میں عوام پر قہر ٹوٹا اور لوگوں کی چیخیں آسمان تک پہنچیں تو نواز شریف نے یکسر اپنے بھائی کی قیادت میں نون لیگ کی اپنی ہی حکومت سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا۔

اسی طرح 2017 میں وزارت عظمی سے اپنی رخصتی کے بعد جب نواز شریف کے ہی مقرر کردہ شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بنے اور حکومت کی باقی ماندہ مدت پوری کی تو نواز شریف نے اپنی ہی پارٹی کے اس عرصہ حکومت کو بھی اوون کرنے سے انکار کردیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں نواز شریف ن لیگ کی حکومت کو صرف اس وقت ن لیگ کی حکومت مانتے ہیں جب وہ خود وزیر اعظم ہوں۔

Nawaz Sharif on budget 2024

اب وفاق میں ان کے بھائی کی وزارت عظمیٰ میں نون لیگ کی ایک مضبوط حکومت ہے اور پنجاب میں بھی ان کی صاحبزادی ان کی مرضی سے وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز اور بلا شرکت غیر اقتدار کے مزے بلکہ تجربات کے مزے لوٹ رہی ہیں۔ اس "تجرباتی عمل" کے دوران کسی کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں ہے یہاں تک کہ ان کے کزن حمزہ شہباز کو بھی پنجاب سے دور رکھا گیا ہے تاکہ "سیکھنے" کے اس عمل میں مریم صاحبہ کو کسی بھی قسم کو کوئی پریشانی نہ ہو۔ میاں صاحب خود بھی پنجاب حکومت کے ہر معاملے میں پوری طرح شریک ہیں۔ ان کی صاحبزادی ان کو سستی روٹی کے تندوروں سے لے کر پنجاب حکومت کے اعلی سطحی اجلاسوں تک میں اپنے ساتھ رکھتی ہیں۔ غالباً وہ بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کو یہ تاثر دینا چاہتی ہیں کہ ان کے ہر فیصلے کے پیچھے ان کے والد چٹان کی طرح کھڑے ہیں اور بلا شبہ میاں صاحب اپنی بیٹی کی وزارت اعلیٰ کو کامیاب کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگا رہے ہیں اور ایک باپ کو یہی کرنا چاہیے۔ مگر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب میاں صاحب سارے فیصلے خود کرنے کے بعد ان کے مضر اثرات اور تنقید پر یکسر ان فیصلوں سے لا تعلق ہو جاتے ہیں۔

یہ ایک بچکانہ رویہ ہے موجودہ دور میں ایسی میڈیائی حرکتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اب ہر وہ چیز جو پہلے پردوں کے پیچھے ہوتی تھی اسکو عوام پوری طرح سمجھ اور جان چکے ہیں۔ لوگ اب ایسی حرکتوں کو لیڈر کا اخلاص نہیں بلکہ چالاکی سمجھتے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ ایسے ان کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکا جا رہا ہے۔

کچھ اسی قسم کی حرکتیں اب ان کی صاحبزادی بھی کر رہی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک بیان داغا جس کے مطابق انہوں نے اپنی 100 دن کی حکومت میں وہ کارہائے نمایاں سر انجام دے ڈالے ہیں جو ان کے مخالفین تین صدیوں میں بھی انجام نہیں دے سکتے!

ان کارناموں میں ایک کونسلر لیول کے کام سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسی طرح کے تمام نچلے درجے کے حکومتی عہدیداروں کے لیول کے کام شامل ہیں جو مریم صاحبہ اپنے کریڈٹ میں لے رہی ہیں۔ وہ ایک لحاظ سے ٹھیک بھی ہیں کیونکہ اپنے سیاسی کیریئر میں اس سے پہلے انہوں نے کسی بھی اہم حکومتی عہدے پر کوئی کام نہیں کیا تھا حتیٰ کہ وہ کبھی ایم پی اے یا رکن قومی اسمبلی بھی نہیں رہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کے لیول کے کام سے لے کے چیف سیکرٹری تک کے کاموں میں بھرپور دلچسپی لے رہی ہیں بلکہ کئی محکموں کی تو وہ وردی بھی پہن لیتی ہیں کہ مبادہ اس سے ان کو اس محکمہ کی زیادہ سمجھ آ جائے اور وہ  سیکھنے کا اس  عمل کو جلد از جلد مکمل کر کے  اپنے اس تجربے کی روشنی میں عوام کو ڈیلور کر سکیں۔

رہی بات 100 دن کی کارکردگی کی، فی الحال تو ان کے کریڈٹ پر ان 100 دنوں میں وہی چند کام ہیں جن کا میڈیا میں شور زیادہ ہے اور حقیقت میں ان کے اثرات الٹے ہیں۔ مثلاً پنجاب میں ایک عرصے سے آئی ٹی بورڈ کے زیر اہتمام حکومتی امور کو ڈیجیٹلائز کرنے کا کام جاری تھا اب اس کے تحت مختلف شہری خدمات جن میں طلاق اور اموات کے سرٹیفکیٹس گھروں تک پہنچانا شامل ہے مریم صاحبہ ان کو براہ راست اپنا کریڈٹ سمجھ رہی ہیں۔ حالانکہ یہ ایک شہری حکومت کے کرنے کے کام ہیں۔ اسی طرح اب کہا جا رہا ہے کہ پنجاب کے سکولوں میں بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر دودھ مہیا کیا جائے گا۔ بظاہر یہ بہت اچھا اقدام ہے لیکن لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ذرا پتہ کریں پنجاب میں ڈیری کا کاروبار کس کا ہے!!!؟

 ایسے اور بھی کئی کام ہیں جیسے چھ مہینوں کے اندر پنجاب کی سڑکوں، گلیوں نالیوں کی تعمیر و مرمت وغیرہ جس کے لیے ایک خطیر بجٹ مختص کیا گیا تھا لیکن ابھی تک کسی علاقے میں ویسی تعمیر مرمت نظر نہیں آئی جتنا میڈیا پر اس کا شوشہ چھوڑا گیا تھا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس فنڈ کی وجہ سے بہت سے مقامی سطح کے ایم پی ایز اور پھر یونین کونسل لیول تک ان کے سپورٹرز فیضیاب ہوں گے اور مریم صاحبہ کو دعائیں دیں گے۔

100 دن کی اس حکومت میں پنجاب کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھنے والے کسانوں سے گندم نہ خریدنے سے لے کر پھر پرائیویٹ فرموں اور آڑھتیوں کی مدد سے وہی گندم سستے داموں سٹاک کر کے اس کو برآمد کرنے کی منصوبہ بندی بھی شامل ہے جس پر کام جاری ہے۔ اس کارنامے کی وجہ سے وقتی طور پر آٹے کی قیمت ضرور کم ہوئی تھی جو اب پچھلے کچھ دنوں میں 200 روپے فی توڑا پھر بڑھ چکی ہے اور لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چھ مہینہ بعد آٹے کا ریٹ پھر وہی ہوگا جو پی ڈی ایم حکومت کے دور میں تھا۔

کچھ دیگر کارنامے بھی اس دوران سر انجام پائے ہیں جیسے کسی حادثے پر افسوس کا اظہار کرنا، کسی فوتگی پر تعزیت اور کسی سانحہ کا نوٹس لینا۔ ان کارناموں کو بھی وزیر اعلیٰ کے آفیشل "ایکس" اکائونٹ پر ان کے روز کے کاموں کی فہرست میں جاری کیا جاتا رہا ہے۔




Post a Comment

Previous Post Next Post