علی امین گنڈا پور اپنے ہی خلاف گول کر گئے؟
اسلام آباد جلسے میں علی امین گنڈاپور نے اچھی پرجوش اور مجمعے کے ذوق کے مطابق تقریر کی مگر وہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں انکو اپنے عہدے کا خیال بھی رکھنا چاہیے تھا ، خاص طور پر صحافیوں کے حوالےسے انکی زبان اور لہجہ درست نہیں تھا ،۔اگر انکے خیال میں کچھ میڈیا مالکان ،اینکرز یا کالم نگار کسی کے اشاروں پر چل رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے صحافیوں کی تضحیک کی جائے۔
علی آمین گنڈاپور کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس سارے عرصہ میں میڈیا کا بہت بڑا قابل ذکر حصہ ان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے ۔ درجنوں صحافیوں پر مقدمات ہوئے ہیں ، ان گنت نوکریوں سے نکالے گئے ہیں اور کئی ایک ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں ،شہید ارشد شریف کی عظمت کو سلام اور عمران ریاض کی بہادری کو بھی داد ۔۔ مگر صحافت کی دنیا میں صرف یہ دو نام ہی صحافت نہیں ہیں ۔۔!!!
علی امین بھول رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کو 2011 کے بعد 2018 تک بام عروج پر پہنچانے والا میڈیا ہی تھا ۔2022 سے لیکر اب تک کے تاریک ترین آمرانہ دور میں بھی ان گنت صحافی پی ٹی آئی کی حمایت کی پاداش میں نتائج بھگت رہے ہیں ۔
بیٹ رپورٹرز اور نیوز ڈیسک پر کام کرنے والے صحافی اصل صحافی ہیں جو اپنے فن اور اپنے پیشے سے مخلص ہیں ، رپورٹرز ،کیمرہ مین ، اور ڈیسک ایڈیٹرز ہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی صحافت کا علم اٹھائے ہوئے ہیں ۔ آج بھی نتائج کی پرواہ کئے بغیر اسلام آباد جلسے کی پل پل خبریں یہی صحافی دے رہے تھے۔
آج بھی عین اس وقت جب علی آمین گنڈاپور جلسہ عام میں صحافیوں کو لتھاڑ رہے تھے تو روزنامہ اوصاف کے ٹی وی چینل اے بی این نیوز کو بغیر نوٹس دئیے پی ٹی آئی جلسہ دکھانے کی پاداش میں آف ائیر کردیا گیا ۔۔
پی ٹی آئی رہنمائوں کو چاہے کہ صحافت یا صحافیوں سے متعلق بیان بازی کرتے وقت احتیاط کریں کیوں کہ ان میں سے کسی کو بھی ایک صحافی کی مشکلات اور اسکی زندگی کو لاحق خطرات کا اندازہ نہیں ہے ۔۔
چند اینکروں ، کالم نگاروں یا میڈیا مالکان سے آپکو اختلاف ہو سکتا ہے تو نام لیکر ان پر تنقید کریں مگر یوں سر عام سارے میڈیا اور صحافیوں کو تضحیک کا نشانہ بنانا انتہائی قابل مذمت ہے، جو صحافی یا ٹی وی چینل آپ کو کوریج نہیں دے پا رہے یا ریاستی بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور ہیں اور وہ جو نظریاتی یا کسی دیگر اختلاف کی وجہ سے آپ کی مخالفت کر رہے ہیں ان میں بھی فرق رکھیں۔
اگر آپ کے نامی گرامی تیس مار خان رہنماء دو دن کی جیل یا چند دن کی سختیاں نہیں برداشت کر سکے اور پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر چلتے بنے ہیں تو میڈیا کی مجبوریوں کو بھی سمجھیں ۔
بجائے اس کے کہ آج اسلام آباد جلسے کے سٹیج سے میڈیا پر لگی قدغنوں، جبر اور غیر اعلانیہ سننسر شپ کی مذمت کی جاتی ،علی آمین گنڈاپور نے انتہائی نادانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میڈیا کیخلاف غلط زبان استعمال کی اور اپنا کیس خود خراب کرلیا ۔۔