فائنل کال میں ناکامی،کیا پی ٹی آئی قیادت کے استعفے حل ہیں؟

کیا پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کے استعفے حل ہیں؟

pti-leadership-resignation-solution

عمران خان کی فائنل کال میں مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکامی پر پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت پر تنقید ہو رہی ہے، جو کہ بجا بھی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا موجودہ قیادت کے استعفوں کے بعد صورتحال بہتر ہو جائے گی؟ اس کو جاننے کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے صورتحال کا جائزہ لینا پڑے گا۔

موجودہ قیادت نے پی ٹی آئی کی اس قیادت کی جگہ لی تھی جو ریاستی دباؤ کے آگے جھک گئی تھی اور پریس کانفرنسز کے ذریعے پارٹی چھوڑ کر جا چکی تھی۔ موجودہ قیادت کو جس حال میں پارٹی ملی، وہ سب کے سامنے ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ انہیں ہر لمحہ گرفتاری کا ڈر لگا رہتا ہے، یہ بھی آئے دن مختلف کیسز کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں بچی کھچی پارٹی کو یکجا رکھنا اور مزید ریاستی جبر اور پابندیوں سے بچانا بھی ایک چیلنج ہے۔

جب پوری ریاست آپ کے خلاف اعلانِ جنگ کر چکی ہو تو ایک سیاسی جماعت کے چند رہنما کتنی دیر مزاحمت کر سکتے ہیں؟ ان میں سے جو بھی بھرپور انقلابی کردار ادا کرنے کی کوشش کرے گا، وہ اگلے ہی لمحے ریاستی جبر کا شکار ہوگا۔ بیشتر رہنما وکلاء ہیں، جن کا کام آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کرنا ہے۔ یہ جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے کے ہنر میں ابھی کچے ہیں، خاص طور پر ان حالات میں جب ریاست پورے جبر کے ساتھ کسی کو بھی باہر نکلنے نہ دے۔

کارکنوں کو اٹھا لیا جاتا ہے، سڑکیں اور شہر بند کر دیے جاتے ہیں، ٹرانسپورٹ اور پیٹرول کی فراہمی معطل کر دی جاتی ہے۔ کنٹینرز ہٹانے کے لیے درکار مشینری کا حصول ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔ ہوٹل، ریستوران، اور ہاسٹل زبردستی بند کر دیے جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایک سیاسی جماعت کے نوآموز سیاست دانوں کے پاس الہ دین کا چراغ کہاں سے آئے گا جسے رگڑ کر عوام کو گھروں سے نکالا جائے اور بحفاظت اسلام آباد پہنچایا جائے؟

یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے لیے بہتر حکمت عملی بنائی جا سکتی تھی، لیکن جب ریاست آپ کے جائز آئینی اور قانونی حقوق کو پامال کرنے پر تلی ہو تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ ان حقوق کی پامالیوں کے خلاف عدالتیں آخری سہارا ہوتی ہیں، لیکن جب عدالتیں بھی ریاست کے دباؤ میں ہوں، میڈیا کی زبان بندی کر دی جائے، اور جو بھی ذرا سی آواز بلند کرے، اسے اٹھا لیا جائے، تو عوام کو کیسے متحرک کیا جائے؟

خیبر پختونخوا میں حالات کچھ بہتر ہیں، مگر وہاں کی حکومت کو ہر لمحہ گورنر راج اور اپنے ساتھیوں کی غداری کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ بھی آزادانہ نقل و حرکت سے محروم ہیں۔ وہ نکلتے ہیں تو انہیں یقین نہیں ہوتا کہ وہ واپس پہنچ پائیں گے یا نہیں۔ اس کے باوجود وہ صوبہ چلانے کے ساتھ ساتھ عمران خان کی کال پر اپنی طرف سے ممکنہ حد تک اقدامات کر رہے ہیں۔

موجودہ قیادت کے بغیر کون؟

اب ذرا مندرجہ بالا حالات کی روشنی میں دیکھیں کہ اگر موجودہ قیادت بھی نہ رہی تو پارٹی کی قیادت کون کرے گا؟

یہ قیادت پریس کانفرنسز کر کے جانے والوں کے بعد آئی تھی۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ یہ لوگ عمران خان کے نظریاتی ساتھی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل عمر ایوب کے خلاف مہم چلی کہ وہ بطور سیکرٹری جنرل فعال نہیں ہیں۔ ان کی جگہ سلمان اکرم راجہ آئے تو اسے خوش آئند تبدیلی قرار دیا گیا، لیکن سلمان اکرم راجہ کو بھی مارچ کی ناکامی پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اور بالآخر انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔

صاحبزادہ حامد رضا، جنہوں نے بلے کے نشان چھن جانے کے بعد اپنی پوری جماعت پی ٹی آئی کو پیش کر دی، نے بھی کور کمیٹی اور قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے دیا۔ فواد چوہدری اور فرخ حبیب کے بعد پی ٹی آئی کا میڈیا سیل تقریباً ختم ہو گیا تھا، لیکن راؤف حسن نے آ کر اسے کسی حد تک فعال کیا۔ بعد میں ان پر بھی تنقید ہونے لگی کہ وہ غیر فعال ہو گئے ہیں، جس کے بعد ان کی جگہ شیخ وقاص اکرم نے لی۔

شیخ وقاص اکرم، جو میڈیا معاملات کے ماہر نہیں ہیں، ان حالات میں ایک بہتر انتخاب تھے، لیکن اب ان پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔

کچھ رہنما جو روپوش ہیں، ان پر بھی تنقید ہو رہی ہے۔ لیکن یہ نہیں سوچا جا رہا کہ اگر یہ بھی سامنے آ کر گرفتار ہو گئے تو اس سے پارٹی کو کیا فائدہ ہوگا؟

پارٹی کا مستقبل

فرض کریں کہ عمر ایوب، علی محمد خان، علی امین، بیرسٹر گوہر، شیخ وقاص، اور حماد اظہر سمیت تمام موجودہ قیادت مستعفی ہو جائے تو پارٹی کی بھاگ دوڑ کون سنبھالے گا؟

پی ڈی ایم کی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ یہی چاہتی ہیں کہ عمران خان جیل میں سڑتے رہیں اور پی ٹی آئی ایک جماعت کے طور پر ختم ہو جائے۔ اگر اسی طرح تنقید کا سلسلہ جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب قیادت کے لیے کوئی باقی نہیں بچے گا۔

تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ٹائیگرز کو اپنے غصے کو ٹھنڈا کرنا چاہیے۔ موجودہ حالات میں قیادت کا احتساب ضرور کریں، مگر ان چیلنجز کا بھی ادراک کریں جن کا سامنا قیادت کو ہے


Post a Comment

Previous Post Next Post