مستقبل کا سیاسی منظر نامہ |Current political situation in Pakistan and future prospects

مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا؟ 

Current political situation


پاکستان جیسے ملک میں سیاسی اتار چڑھاؤ کے دوران لوگوں کو ہمیشہ ایک غیر متعلقہ عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ طاقتور حلقے اور اشرافیہ حکومتوں کے قیام اور گرانے میں عام عوام سے زیادہ ملوث رہے ہیں۔ 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں یہی سیاسی تاریخ دہرائی جا رہی ہے اور ریاستی اقدامات کے ذریعے ایک مقبول سیاسی جماعت کو ختم کرنے کی مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں، ان حالات میں سیاسی ماحول کا  درست اندازہ  بہت مشکل ہے کیونکہ عوام سے ذیادہ ان عناصر کا رجحان اور نیت کا ادراک کرنا پڑے گا جو اس سارے کھیل میں فیصلہ کن کردار کے حامل ہیں ۔ پولیٹکل انجینرنگ کی جو کوششیں ہمیں اس وقت نظر آرہی ہیں انکو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر عام انتخابات ہوئے تو اس کے نتیجے میں ایک اتحادی اور معلق پارلیمنٹ وجود میں آنے کا امکان ہے۔ ممکن ہے کہ مرکز میں پیپلز پارٹی، جہانگیر ترین گروپ ، مسلم لیگ قائد اعظم، ایم کیو ایم ، جمعیت علمائے اسلام (ف) ، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) پر مشتمل حکومت قائم کی جائے جیسا کہ پہلے بھی ایسا تجربہ 2008 میں کامیابی سے کیا جاچکا ہے ۔ البتہ اس اتحادی حکومت کا وزیر اعظم کون ہوگا یہ اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت ہوگا کیونکہ سابق صدر آصف علی زرداری کی خواہش کے برعکس  وزات عظمیٰ کے لیے ابھی قرعہ فال بلاول زرداری کے لیے نکلتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ مقتدر حلقوں کے خیال میں ابھی وہ اس منصب کے لیے ناپختہ اور کم عمر ہیں۔ ممکن ہے وزیر اعظم پیپلز پارٹی میں ہی سے کوئی دوسرا نام ہو یا پھر جہانگیر ترین گروپ میں سے کسی کو وزیر اعظم بنا دیا جائے ۔ مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں ایک اور بڑی جماعت کے طور پر تو آ سکتی ہے لیکن وہ حکومت کا حصہ نہیں بنے گی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کو ترجیح دے سکتی ہے۔ تاہم مسلم لیگ ن پنجاب میں مخلوط حکومت کی قیادت کر سکتی ہے۔
تحریک انصاف کیخلاف ریاستی کریک ڈاؤن اگر چہ زوروں پر ہے مگر فی الحال اسے قومی سیاست سے مکمل طور پر منہا کرنا ممکن نہیں کیونکہ عوام کی ایک بڑی اکثریت ابھی تک عمران خان کیساتھ کھڑی ہے۔ ہمارےہاں دیہی علاقوں کی سیاست شہروں سے الگ رہی ہے،یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں سے تحریک انصاف کے مضبوط امیدوار توڑے جارہے ہیں جس کا اثر لازمی طور پر الیکشن میں نظر آئے گا ، اس طرح تحریک انصاف صرف شہری حلقوں تک محدود رہ جائے گی جہاں سے وہ چالیس سے پچاس نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں جا سکتی ہے  اور پنجاب اسمبلی میں بھی اسے اتنی ہی سیٹیں ملنے کا امکان ہے ۔ 
دوسری جانب صوبہ خیبرپختونخوا میں بھی سابق حکمران جماعت رکاوٹوں کے باجود بڑی جماعت کے طور پر برقرار رہے گی ۔ ممکن ہے جوڑ توڑ کے ذریعے  اتحادی جماعتیں وہاں بھی مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاییں  ، اس صورت میں بھی تحریک انصاف ایک بڑی اور مضبوط اپوزیشن پارٹی رہے گی۔
ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر 2008 کے انتظامات کو دہرایا جا رہا ہے جب مرکز میں پیپلز پارٹی  اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تھی۔یہ بات تو واضح ہے کہ  موجودہ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد صرف عمران خان سے جان چھڑانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اگر عوامی رائے کو ایک طرف رکھتے ہوئے  صرف انتظامی اور ریاستی اقدامات پر غور کیا جائے تو یہ ہدف تقریباً حاصل ہو چکا ہے۔ اب یہ تمام جماعتیں ایک بار پھر قدم بہ قدم اپنی پرانی مروجہ سیاست کی طرف واپس لوٹنا شروع ہوجائیں گی لیکن عمران کی واپسی کے ڈر سے انکی دیدہ و نادیدہ پارٹنر شپ  اگلے کچھ  سال تک برقرار رہے گی ۔
یوں اگلا ایسی منظر نامے بھی ایک مخلوط بندوبست نظر آرہا ہے جس کے تحت ممکنہ طور پر مسلم لیگ (ن) پنجاب میں حکومت سنبھالے گی اور پیپلز پارٹی دیگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر مرکز میں حکومت سنبھالے گی۔ مسلم لیگ ن مرکز میں اپوزیشن میں رہنے کو ترجیح دے گی تاکہ پنجاب میں حکومت کے مزے لینے کے ساتھ وہ  اپوزیشن کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی عوامی مقبولیت دوبارہ حاصل کر سکے جو موجودہ مہنگائی اور بدترین معاشی حالات کی بدولت انتہائی کم درجے پر آچکی ہے۔ 
ختم شد 

:Note

Please stay connected with Hasilekalaam for more updates and incoming developments. 

Post a Comment

Previous Post Next Post