پی ٹی آئی فائنل کال: ایک جائزہ اور آگے کا لائحہ عمل
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی فائنل کال، اسلام آباد قتل عام کی صورت اختیار کر گئی۔ حکومت و اسٹیبلشمنٹ کے مظالم اپنی جگہ، لیکن پی ٹی آئی کو اپنے اندر بھی جھانک کر جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ حالات اس نہج تک کیوں پہنچے اور اب آگے کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔
ذیل میں، پہلے اس کال
کے حوالے سے پی ٹی آئی کی غلطیوں کا جائزہ لیا گیا ہے، اور آخر میں مستقبل کی حکمت
عملی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
فائنل کال: بنیادی
خامیاں اور ناکامی کی وجوہات
وقت کا غلط انتخاب
پی ٹی آئی کی فائنل کال کے لیے وقت کا انتخاب درست نہیں تھا۔
کارکنان ابھی 4 اکتوبر کی
پراسرار پسپائی سے سنبھل نہیں پائے تھے۔اس دوران حکومت و
اسٹیبلشمنٹ نے چھبیسویں آئینی ترامیم کے ذریعے اہم اہداف حاصل کر لیے تھے، جیسے آئینی
عدالتوں کا قیام، سروسز چیفس کی مدتِ ملازمت میں توسیع، اور سپریم کورٹ و
ہائیکورٹس میں من پسند ججوں کی تقرری۔ایسے میں فوری احتجاج کے مؤثر نتائج حاصل
کرنا مشکل تھا۔
لفظ
"فائنل" کا غیر موزوں استعمال
تحریکیں مسلسل جدوجہد کا نام ہیں، ان میں کوئی "فائنل کال"
نہیں ہوتی۔ایسی اصطلاح کارکنوں کو "اب یا کبھی نہیں" کی نفسیات میں
مبتلا کر دیتی ہے، اور ناکامی کی صورت میں طویل عرصے تک جدوجہد کی ہمت کمزور ہو
جاتی ہے۔،تحریکوں کی جہد مسلسل کی وجہ سے حالات ایسے بن جاتے ہیں کہ بالآخر خود ہی
کوئی موقع " فائنل کال" بن جاتا ہے
ناکافی تیاری
کسی بڑے معرکے کے لیے کارکنوں کو کم از کم دو سے تین ماہ کا وقت دیا
جانا چاہیے تھا۔اس دوران چھوٹے جلسوں، کارنر میٹنگز، اور زوم اجلاسوں کے ذریعے
ماحول بنایا جا سکتا تھا۔اگر باقی صوبوں میں رکاوٹیں تھیں تو
خیبر پختونخوا میں
ایسی تیاری ممکن تھی، لیکن اس پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔اگست 2014 کے انقلاب مارچ
کی مثال سامنے ہے، جس کے لیے طاہر القادری کے کارکنان نے ڈیڑھ سال تک تیاری کی
تھی۔
قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکامی
پی ٹی آئی نے "فائنل کال " کے حوالے سے قومی سطح پر اتفاق
رائے پیدا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور ایک مرتبہ پھر سولو فلائٹ کا
انتخاب کیا گیا۔ دیگر جماعتوں، وکلاء، مزدور اور کسان
تنظیموں کو ساتھ ملا کر ایک مضبوط اتحاد بنایا جا سکتا تھا ۔محمود اچکزئی، اختر
مینگل، علی وزیر، جماعت اسلامی، اور دیگر تنظیموں کو شامل کرنے کی کوشش نہیں کی
گئی۔ اگر یہ
شخصیات اور تنظیمیں مارچ کے اسٹیج پر موجود ہوتیں تو مظاہرین پر گولیاں چلانے کا
امکان کم ہو جاتا۔ ممکن ہے پی ٹی آئی کے سارے مطالبات باقی جماعتوں کے لئے قابل
قبول نہ ہوتے مگر مینڈیٹ چوری اور فارم 45 کے حوالے سے جماعت اسلامی سمیت متعدد
جماعتوں سے اشتراک عمل ممکن تھا۔
بیس کیمپ کا غیر موثر
استعمال
دیگر صوبوں سے ایک ہفتہ قبل لوگوں کو پختون خواہ بلا کر انہیں مختلف
شہروں کے حجروں میں ٹھہرا دیا جاتا تو 24 نومبر کو پختون خواہ سے نکلنے والے قافلے
میں پورا پاکستان شامل ہوتا ، اگر صرف پی ٹی آئی کے یو سی لیول کے عہدیداروں کو ہی
ایک ایک دو دو کر کے ہفتہ قبل کے پی بلا لیا جاتا تو مارچ کے شرکاء کی تعداد
لاکھوں میں چلی جاتی جسے روکنا کسی کے بس کی بات نہ رہتی۔
ناقص انتظامات
خیبر پختونخوا کے قافلے کو منظم کرنے میں بھی شدید خامیاں تھیں۔ مظاہرین کے لیے بنیادی سہولیات (جنریٹر،
ٹینٹ، کھانے پینے کی اشیاء) کا موثر انتظام نہیں کیا گیا۔ کارکنان طویل احتجاج کی تیاری کے بغیر آئے۔
اسٹریٹجک غلطیاں
مظاہرین کو براہ راست ڈی چوک پہنچانے کا فیصلہ حماقت تھی۔ ڈی چوک ایک بند گلی ہے، جہاں مظاہرین
انتظامیہ سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے مزید دباؤ ڈالنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس
کے علاوہ یہاں ارد گرد کھانے پینے کی ایشاء کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے اور آپریشن
کی صورت میں گھیر کر ماراجاسکتا ہے ۔ بہتر ہوتا کہ کشمیر ہائی وے یا 26 نمبر چونگی جیسے مقامات پر احتجاج
کیا جاتا، اور مرحلہ وار آگے پیش قدمی کی جاتی
طویل احتجاج کے لیے جی نائن کے قریب کشمیر ہائے وے کا وہ حصہ سب سے
مناسب ہے جہاں 2019 میں مولانا فضل الرحمان نے نو دن دھرنا دیا تھا ، اس جگہ کے
اطراف میں مارکیٹیں ، بازار وغیرہ موجود ہیں جب کہ کسی آپریشن کی صورت میں یہاں
کارکنوں کو ارد گرد کی ابادی کی وجہ سے ہدف بنانا اتنا آسان نہیں ۔
قیادت کی غیر موجودگی
اگر مجمع ڈی چوک پہنچ گیا تھا تو وہاں پی ٹی آئی کی تمام مرکزی قیادت
کو سٹیج پر ہونا چاہیے تھا ، سوائے علی امین گنڈا پور اور بشری بی بی کے پی ٹی آئی
کی تمام لیڈر شپ اس احتجاج سے لاتعلق ہی رہی ۔حتی کہ پارٹی چیئرمین نے ٹویٹر پر
بھی کوئی بیان دینے کی زحمت تک نہیں کی ۔۔۔۔
آگے کا لائحہ عمل
سانحہ اسلام آباد پر
فوکس کریں
خیبر پختونخوا اسمبلی سے سانحہ کی مذمتی قرارداد منظور کرائی جائے۔
تین روزہ سوگ کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں میں پرامن احتجاج کیا
جائے۔
شہداء اور زخمیوں کا مکمل ڈیٹا جلد مرتب کیا جائے۔
نعشوں کا پوسٹ مارٹم صوبائی حکومت کی نگرانی میں کروایا جائے تاکہ ثبوت عدالت یا
کمیشن کے سامنے پیش کیے جا سکیں۔
قانونی اور تنظیمی
اقدامات
سانحہ میں ملوث افراد(حکومتی،انتظامی ،ریاستی) کے خلاف خیبر پختونخوا
میں مقدمات درج کیے جائیں۔
تمام شواہد (ویڈیوز، تصاویر، گاڑیوں پر نشانات) محفوظ کیے جائیں۔
شہداء کے خاندانوں کی قانونی مدد اور مالی معاونت کی جائے۔
سفارتی اور سیاسی
رابطے
سانحہ کے ثبوت غیر ملکی سفارت خانوں اور عالمی تنظیموں کو بھجوائے
جائیں۔
سانحہ کے حوالے سے قومی جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ رابطہ کر کے کل
جماعتی کانفرنس بلائی جائے۔
قیادت میں تبدیلی سے
فوری طور پر گریز
پی ٹی آئی کی قیادت پر مارچ کی ناکامی کی
وجہ سے تنقید ہورہی ہے مگر فوری طور پر پارٹی قیادت کو تبدیل نہیں کرنا چاہیے ،
اگر ایسا کرنا ضروری ہو تو اسے مرحلہ وار سر انجام دیا جانا چاہیے ۔
تنظیمی اصلاحات
آیندہ ایسی ناکامی سے بچنے کے لیے پی ٹی آئی کی پارلیمانی اور تنظیمی
قیادت کو الگ کیا جانا چاہیے ۔ منتخب ارکان کے پاس تنظیمی عہدے نہیں ہونے چاہیں ۔
تنظیمی عہدے نظریاتی ،پکے اور سختیاں برداشت کرنے والے کارکنوں کے سپرد کیے جانے
چاہیں ، اس طرح کی تنظیم سازی کے لیے مہم شروع کی جائے
فوری احتجاج سے گریز
فی الحال دوبارہ احتجاج ممکن نہیں، اس لیے مطالبات (مینڈیٹ کی واپسی،
عمران خان کی رہائی) کے لیے ڈپلومیٹک چینلز اور سیاسی اتحاد پر توجہ دی جائے۔ مستقبل کے لیے کارکنان کو مرحلہ وار
موبلائز کرنے کا عمل شروع کیا جائے۔
عوامی
حمایت کی بحالی
طویل مدتی جدوجہد کے لیے مرحلہ وار حکمتِ عملی اپنائی جائے۔ عوامی مسائل، جیسے مہنگائی اور بے روزگاری، کو مرکز میں رکھ کر حکومت کے
خلاف بیانیہ مضبوط بنایا جائے
پی ٹی آئی، #فائنل کال، #عمران خان، #سیاسی حکمت عملی، #پاکستان کی سیاست#